آشوب چشم کا مسئلہ

فتویٰ نمبر:۲۶۵۰۰

سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل شہرِ کراچی میں آشوبِ چشم کی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مریض کے آنکھوں سے بکثرت پانی نُمامادہ بہتا رہتا ہے،آیا اس مادہ کے بہنے سے وضو پر کوئی اثر پڑتا ہے یانہیں؟نیز یہ مادہ پاک ہے یا ناپاک ہے؟

جواب

آباد

بہادر

کراچی

واضح رہے کہ آنکھ سے بہنے والامادہ اگرخون، پیپ یاپیپ نُماگدلایاچکنا نہ ہو،بلکہ عام پانی کی طرح صاف ہوتوایسے مادہ کے پاک یاناپاک ہونے سےمتعلق شرعاًیہ تفصیل ہے کہ اگروہ مادہ آنکھ میں ہونے والے کسی زخم یادانے کی وجہ سے آنکھ سےنکل رہا ہے تووہ ناپاک ہےاوراس سے وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے ،لیکن اگر وہ کسی زخم یادانے کی وجہ سے آنکھ سے نہیں نکل رہا بلکہ محض آنکھ کی سوزش یالالی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سےنکل رہاہےتووہ پاک ہے اور اس کے نکلنے سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
آشوب چشم جسے عرفِ عام میں “سرخ آنکھیں،گلابی آنکھیں یاآنکھیں آنا”کہا جاتا ہےکے متعلق ڈاکٹر حضرات سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اس بیماری کی وجہ سے آنکھوں میں آجانے والے جراثیم سےآنکھوں میں موجود بیرونی پرت انفیکشن یا الرجی کا شکار ہوجاتی ہے،آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اورآنکھوں سے پانی نُما مادہ یعنی آنسوں اندرونِ جگہ کے سکڑنےکے باعث کثرت سے بہنے لگتے ہیں،عام حالات میں ابتدائی طور پراس سےآنکھوں میں زخم نہیں آتا ،البتہ بعض اوقات جب مریض بروقت مناسب علاج نہیں کرتاتویہ انفیکشن بڑھ جاتاہےاور اس سےآنکھوں میں زخم بھی ہو جا تا ہے ، اورپھر پیپ یا پیپ نُما مادہ بھی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔
مذکورہ تفصیل کے مطابق اس بیماری سے عموماًآنکھوں میں کوئی زخم نہیں آتا اورپانی نُما مادہ محض آنکھوں کی سوزش ،الرجی یاکسی انفیکشن کی وجہ سے بکثرت بہتارہتا ہے،چونکہ یہ ایک طبی مسئلہ ہے جس میں ماہرین طب کی رائے معتبر ہے،اس لئےمذکورہ معلومات کے مطابق شرعاً یہ پانی پاک ہےاوراس سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
البتہ اگرکسی کی آنکھ میں یہ انفیکشن اس قدر بڑھ جائے کہ آنکھوں میں زخم بالکل واضح ہوجائےیا کسی مریض کو خود یہ یقین یاغالب گمان ہویاڈاکٹری معائنہ سے ثابت ہوجائے کہ اس انفیکشن سےاسکی آنکھ میں زخم ہوگیاہے اور یہ نکلنے والا پانی آنکھ میں موجود اسی زخم کی وجہ سے نکل رہا ہےیاآنکھ سے نکلنے والا مادہ پانی کی رنگت کی طرح صاف اور رقیق نہ ہوبلکہ خون،پیپ یاپیپ نماگدلایاچکنااورگاڑھا ہوتوایسی صورت میں وہ مادہ ناپاک ہوگااوراس سے وضو بھی ٹوٹ جائےگا،تاہم ایسی صورت میں اگر یہ مادہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت آنکھ سے مسلسل اس طرح بہتا رہاکہ وہ ایک فرض نمازپڑھنے جتنا وقت بھی نہ رکاتو ایسی صورت میں ایسا شخص معذور کے حکم میں ہوگا یعنی ہرنمازکاوقت داخل ہونےپرایک دفعہ وضو کر کے وقت کےاختتام تک اس وضوسےجتنی چاہےنمازیں پڑھ سکتاہے،فرض ،نفل،قضاءاورتلاوت قرآن وغیرہ کر سکتا ہے ، اگرچہ اس دوران وہ عذرجاری ہو۔

الدر المختار (1/ 147)

(كما) لا ينقض (لو خرج من أذنه) ونحوها كعينه وثديه (قيح) ونحوه كصديد وماء سرة وعين (لا بوجع) وإن خرج (به) أي بوجع (نقض) لأنه دليل الجرح، فدمع من بعينه رمد أو عمش ناقض، فإن استمر صار ذا عذر مجتبى، والناس عنه غافلون.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 147)

(قوله: وصديد) في المغرب: صديد الجرح ماؤه الرقيق المختلط بالدم (قوله: وعين) أي وماء عين: وهو الدمع وقت الرمد. وفي بعض النسخ وغيره بدل وعين: أي غير ماء السرة كماء نفطة وجرح (قوله: لا بوجع) تقييد لعدم النقض بخروج ذلك، وعدم النقض هو ما مشى عليه الدرر والجوهرة والزيلعي معزيا للحلواني.
قال في البحر: وفيه نظر، بل الظاهر إذا كان الخارج قيحا أو صديدا لنقض، سواء كان مع وجع أو بدونه لأنهما لا يخرجان إلا عن علة، نعم هذا التفصيل حسن فيما إذا كان الخارج ماء ليس غير. اهـ. وأقره في الشرنبلالية، وأيده بعبارة الفتح الجرح والنفطة وماء الثدي والسرة والأذن إذا كان لعلة سواء على الأصح اهـ فالضمير في كان للماء فقط فهو مؤيد لكلام البحر. وفيه إشارة إلى أن الوجع غير قيد بل وجود العلة كاف، وما بحثه في البحر مأخوذ من الحلية، واعترضه في النهر بقوله لم لا يجوز أن يكون القيح الخارج من الأذن عن جرح برئ، وعلامته عدم التألم
فالحصر ممنوع اهـ: أي الحصر بقوله لا يخرجان إلا عن علة. وأنت خبير بأن الخروج دليل العلة ولو بلا ألم، وإنما الألم شرط للماء فقط، فإنه لا يعلم كون الماء الخارج من الأذن أو العين أو نحوها دما متغيرا إلا بالعلة والألم دليلها بخلاف نحو الدم والقيح.
ولذا أطلقوا في الخارج من غير السبيلين كالدم والقيح والصديد أنه ينقض الوضوء ولم يشترطوا سوى التجاوز إلى موضع يلحقه حكم التطهير، ولم يقيدوه في المتون ولا في الشروح بالألم ولا بالعلة، فالتقييد بذلك في الخارج من الأذن مشكل لمخالفته لإطلاقهم (قوله: وعمش) هو ضعف لرؤية مع سيلان الدم في أكثر الأوقات درر وقاموس (قوله: ناقض إلخ) قال في المنية: وعن محمد إذا كان في عينيه رمد وتسيل الدموع منها آمره بالوضوء لوقت كل صلاة لأني أخاف أن يكون ما يسيل منها صديدا فيكون صاحب العذر. اهـ.
قال في الفتح: وهذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم بإخبار الأطباء أو بعلامات تغلب ظن المبتلى، يجب

فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي (1/ 336)

[ فرع ] في عينه رمد يسيل دمعها يؤمر بالوضوء لكل وقت لاحتمال كونه صديدا .
وأقول : هذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب ، فإن الشك والاحتمال في كونه ناقضا لا يوجب الحكم بالنقض إذا اليقين لا يزول بالشك والله أعلم . نعم إذا علم من طريق غلبة الظن بإخبار الأطباء أو علامات تغلب

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة (1/ 40)

وفي «نوادر هشام» عن محمد رحمه الله: الشيخ إذا كان في عينيه رمد، وتسيل الدموع منها آمره بالوضوء لوقت كل صلاة: لأني أخاف أن ما يسيل قيح أو صديد، فإنه قد يكون في الجفون جرح. وإذا جرح دبره إن عالجه بيده أو بخرقة حتى أدخله تنتقض طهارته

الدر المختار - (1 / 305)

( وصاحب عذر من به سلس ) بول لا يمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة ) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة ( إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة ) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث ( ولو حكما ) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم ( وهذا شرط ) العذر ( في حق الابتداء وفي ) حق ( البقاء كفي وجوده في جزء من الوقت ) ولو مرة ( وفي ) حق الزوال يشترط ( استيعاب الانقطاع ) تمام الوقت ( حقيقة ) لأنه الانقطاع الكامل

امدادالاحکام:355/1

قلت:ان اراد بالعلة مطلق المرض فوجودہ فی الزکام مسلم ونفیه عن ماء فم النائم ممنوع۔۔۔۔۔۔۔۔والظاھر ان المراد بالعلة فی کلام الفقهاء الجرح لامطلق المرض والا لزم کون الدمع ناقضاً ایضاًلاسیما من ضعیف القلب فانه لایبکی الالعلة فی قلبه۔

فتاویٰ رشیدیہ:295

آنکھ دکھنے میں جو پانی نکلتا ہے پاک ہے اگرچہ بعض نے ناپاک کہہ دیا ہے لیکن تحقیق کے خلاف ہے۔

کفایت المفتی:315/2

ناک سے آنے والا پانی جب تک متغیراللون نہ ہواسی طرح آنکھ سے آنے والے آنسو جب تک پانی کی طرح صاف ہوتونواقضِ وضو میں نہیں۔

احسن الفتاویٰ:22/1

نظرِ غائر سے معلوم ہوتا ہے کہ ماءرمد وماء زکام ناقض نہیں،اس لئے کہ منہ کی طرح ناک اور آنکھ اصلی رطوبت کا محل ہے،منہ میں زخم ہونے کی صوت میں جب تک پیپ کا یقین یاخون نظر نہ آئےاس وقت تک لعاب ناقض نہیں اگرچہ عارض کی وجہ سے لعاب کثرت سے بہے،یہی حکم ناک،کان اور آنکھ کا ہونا چاہئے۔ماہرین فن ڈاکٹروں سے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ زکام اور رمد کے پانی کا زخم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply